قرآن وحدیث کی زبان میں
تصوف کا نام تزکیہ اور احسان ہے، مشہور حدیث جس کا نام ”حدیث
جبرئیل“ ہے، اس میں ایمان اور اسلام کے بعد ایک مستقل
سوال ”احسان“ کے متعلق ہے۔ حضرت جبرئیل حضرت محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں:
مَا الاحْسانُ: احسان کسے کہتے ہیں؟
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کاجواب ہے:
اَالاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ
اللہَ کَأنَّکَ تَراہُ:
احسان کا اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ بندگیِ رب کے وقت ایسا
محسوس ہو جیسے بس وہ سامنے ہی ہے۔
اس سے کم مرتبہ یہ ہے:
اِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ
فَاِنَّہُ یَرَاکَ:
وہ تو بہرحال تمہیں دیکھ ہی رہا ہے، نہ تم اس کے دائرہ علم سے
باہر ہو اورنہ احاطہٴ گرفت سے۔
اس لیے مجدد الف ثانی بجا طور پر ارشاد فرماتے ہیں کہ:
”شریعت جو
احکامِ الٰہیہ کا نام ہے، اس کے تین جزو ہیں: علم، عمل،
اخلاص۔ علم کے بغیر عمل نہیں اور عمل کے بغیر علم لاحاصل
ہے اور اخلاص نہ ہوتو عمل بے فائدہ ہے، غرض علم، عمل اور اخلاص یہ تینوں
جزومل کر شریعت بنتی ہے۔“
عمل میں خلوص؛ یہ حاصل ہے
تصوف، تزکیہٴ نفس اوراحسان کا۔ طریقت وحقیقت شریعت
کے خادم ہیں اور شیرعت سے دین ودنیا کی تمام سعادتیں
حاصل ہوتی ہیں۔
طریقت و تصوف کے ذریعے عمل
میں اخلاص پیداکیا جاتا ہے اور مقصد کمالِ شریعت ہے۔
اخلاص کے بغیر رضا کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ اتباعِ شریعت
اور سنت کی پیروی پر رضائے الٰہی کا وعدہ قرآن سے
ثابت ہے․․․․ ارشاد ہے:
قُلْ انْ کُنْتُمْ یُحِبُّوْنَ
اللہَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللہُ (آل عمران:۳۱)
(اے محمد (صلی
اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو
میری پیروی کرو، اللہ تمہیں دوست رکھے گا)
امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ: اس فقیر کو
پورے دس سال کے بعد یہ امر منکشف ہوا اور حقیقت الامر واضح ہوئی۔
(مکتوب ۳۶ جلد اوّل)
حضرت مجدد الف ثانی سولہویں صدی عیسوی
کی اُن بابرکت عظیم شخصیات میں سے ہیں، جنھوں نے نہ
صرف پنجاب؛ بلکہ پورے ہندوستان میں تصوف کے چہرے کو نکھارا، اس کے نوک پلک
درست کیے اور تصور کی حقیت سے آشنا کیا۔
آپ کا پورا نام: ابوالبرکات احمد بدرالدین
ہے، ”امام ربانی اور مجدد الف ثانی“ آپ کا لقب ہے۔ ۵/جون ۱۵۶۴/ آپ کی ولادت اور ۲۶/نومبر ۱۶۲۴/ تاریخِ وفات ہے۔ آپ کے چھٹے دادا سرہند (پنجاب) آکر
آباد ہوئے۔ زندگی کی مختصر مدت میں حضرت مجدد نے جو کارنامے انجام دیے وہ
ہندوستان کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ان کے زمانے میں
تصوف کے نام پر صوفی جو غیرصوفیانہ کام کررہے تھے، ان کی
نقاب کشائی حضرت مجدد
نے اپنی قیمتی مکتوبات اور تعلیمات کے ذریعے کی
اور تصوف کوپاک وصاف کرکے، اس کی صحیح حقیقت سامنے رکھ دی۔
ان کی تعلیم کے کچھ گوشے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور مجدد
صاحب کی عظمت کا اندازہ کریں۔
قیامِ سنت:
فرماتے ہیں: مدتوں علوم ومعارف
اوراحوال مقامات واردات ابرنیساں کے مثل مجھ پر وارد ہوئے اور جو کام کرتا
تھا، اللہ کی پاک عنایت سے کیا۔ اب کوئی تمنا نہیں
رہی، سوائے اس کے کہ کوئی سنت سُنَنِ مصطفی سے زندہ کی
جائے اور جاری کی جائے۔ (مکتوبات۳۷ جلد اول)
سنت کی پیروی:
حق تعالیٰ ظاہر وباطن کو
متابعتِ سنت مصطفویہ علیٰ صاحبہ الصلوات والتحیات سے مزین
ومشرف فرمادے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، محبوب رب
العالمین ہیں، جو چیز بہتر ہے محبوب کے لیے ہے؛ اس لیے
حق تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیم(سورہ قلم آیت۴) بے شک آپ خلقِ عظیم پر ہیں۔
حق تعالیٰ نے آں حضرت صلی
اللہ علیہ وسلم کی ملت کو صراطِ مستقیم فرمایا۔ آپ
نے فرمایا: اَدَّبَنِیْ رَبِّی فَأحْسَنَ تَأدِیْبِیْ (میرے رب نے مجھ کو اچھا ادب سکھایا)
* قیامِ سنت
کے ساتھ سنت کی پیروی پر حضرت مجدد کس طرح آمادہ فرمارہے ہیں اور
فرماتے ہیں کہ تصوف کے مقامات قیامِ سنت اور پیرویِ سنت
کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ (مکتوب ۴۱ جلد اوّل)
شریعت اور
طریقت میں منافات نہیں ہے:
حضرت مجدد اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ شریعت
اور طریقت میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے؛ بلکہ دونوں ایک
ہی سکے کے دو رخ ہیں؛ چناں چہ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں
”زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل سے بھی وسوسہٴ کذب دور
کرنا طریقت وحقیقت ہے۔ یعنی اگر یہ نفی
بہ تکلف ہوتو شریعت ہے اور اگر بے تکلف میسر ہو تو حقیقت۔
پس درحقیقت باطن جو طریقت
سے عبارت ہے، ظاہر کا مکمل کرنے والا ہے، جو کہ شریعت ہے۔ (مکتوبات ۴۱ جلد اوّل)
وحی اور
الہام کا فرق:
وحی اور الہام میں فرق
بتاتے ہوئے تحریر فرمایاکہ وحی قطعی ہے اور الہام ظنی
ہے کہ وحی کا ذریعہ ملائکہ ہیں اور ملائکہ معصوم ہیں۔
احتمالِ خطا وہاں نہیں ہے، الہام میں خطا کا احتمال ہے۔ (دین
کا تصور حضرت مجدد کی نگاہ سے، ص۲۸)
نفس کی صفات
باقی رہنی چاہئیں:
عام طور پر صوفیائے
کرام کے یہاں ضبطِ نفس کے بجائے نفس کُشی کا تصور پایاجاتا ہے،
حضرت مجدد یہ فرماتے ہیں
کہ نفس کے اندر جو صفات ہیں، وہ باقی رہنی چاہئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر نفس نفسِ مطمئنہ بھی بن جائے، یعنی شریعت
کا پابند ہوجائے اس کے باوجود بھی نفس کی دوسری صفات باقی
رہنی چاہئیں؛ کیوں کہ ان صفات سے ترقی کا دروازہ کھلتا
ہے، وہ کہتے ہیں کہ روحانی ترقی نفس کی مخالفت کی
وجہ سے ہے۔ اگر نفس کی مخالفت نہ ہوگی تو روحانی ترقی
بھی نہ ہوگی، اس کے لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب آپ جہاد سے واپس
ہوئے تو میدانِ جہاد سے واپسی پر ارشاد فرمایا:
رَجَعْنَا مشنَ الْجِھَادِ
الأصْغَرِ الیٰ الْجِھَادِ الأکْبَرِ․
(ہم چھوٹے جہاد سے
بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں)
یہاں نفس سے جہاد کو ”جہادِ اکبر“
فرمایا اور فرماتے ہیں کہ فرشتے روحانی ترقی نہیں
کرسکتے؛ کیوں کہ ان میں نفس نہیں ہے، جو فرشتہ جس مقام پر ہے،
اُسی مقام پر رہے گا۔
ایک فرض
ہزار نفلوں سے بہتر:
عام طور پر صوفیائے کرام کا رجحان
نوافل ومستحبات کی طرف زیادہ رہتا ہے؛ لیکن حضرت مجدد فرماتے ہیں کہ ایک فرض کا
مقررہ وقت پر ادا کرنا ہزار نوافل سے بہتر ہے، اور فرماتے ہیں کہ چاہے وہ
نوافل اخلاص کے ساتھ ہوں تب بھی فرض کے مقابلے میں کچھ اعتبار نہیں۔
حضرت امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کرتے ہیں
کہ صبح کی نماز باجماعت ادا فرماکر فارغ ہوئے، دیکھا کہ ایک شخص
ان کے اصحاب میں سے جماعت میں موجود نہیں، دریافت فرمایا
تو معلوم ہوا کہ اکثر شب بیدار رہنے اور نوافل ادا کرنے کی وجہ سے اس
وقت سوگئے۔ فرمایا کہ اگر تمام رات سوتے اور صبح کی نماز جماعت
سے ادا کرتے، اس شب بیداری سے بہتر تھا۔
شریعت کے
مطابق اعمال کی درستی:
ناواقف صوفیائے کرام کے یہاں
کرامتوں اور احوال کی بہت زیادہ اہمیت ہے؛ مگر مجدد صاحب اس بات کو صاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں
کہ اعمال کی صحت علم کے بغیر نہیں ہوسکتی؛ چنانچہ مکتوب ۴۱ میں ارشاد فرمایا:
”واضح ہو کہ علومِ صوفیاء علومِ احوال ہیں اور
احوال، نتیجہ وثمرہ اعمال کا ہیں۔ پس علوم احوال اُسی کے
لیے مسلم ہیں جس نے اعمال کو درست کیا ہو اور پورا پورا حق
اعمال کا ادا کیا ہو اور صحتِ اعمال اسی وقت ہوسکتی ہے کہ اعمال
کو جانے اور ان کا علم حاصل کرے اور کیفیتِ اعمال کو سیکھے اور
علم شریعت ہے کہ نماز وروزہ تمام فرائض ومعاملات نکاح وطلاق وبیوع وجمیع
امور لازمہ کا علم اس سے حاصل ہوتا ہے اور یہ علم کسبی ہے سیکھنے
سے حاصل ہوتا ہے، کسی کو اس علم کے حاصل کیے بغیر چارہ نہیں۔“
فرمایا:
”علم دو مجاہدوں
کے درمیان ہے: ایک مجاہدہ طلبِ علم میں ہے، علم کے حاصل ہونے سے
پہلے ، اور دوسرا مجاہدہ حصولِ علم کے بعد اس پر عمل کرنے میں۔“
توحیدِ وجودی
اور توحید شہودی:
تصوف کے نازک اور الجھے ہوئے مسائل کو
حضرت مجدد نے کس خوبی سے حل کیا ہے، وہ
ان کے مکتوبات میں دیکھنے کی چیز ہے، توحید وجودی
اور توحید شہودی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
”بے شبہ توحیدِ
وجودی کا مقام سالک کو پیش آتا ہے؛ لیکن یہ مرحلہٴ
اول ہوتا ہے، انتہائے سفر نہیں ہے، اس مقام میں سالک نے محبت کا جام پیا
ہے، جس نے اس کو مدہوش کردیا ہے، اس کو نہ اپنی خبر ہے نہ دوسروں کی۔
جب تک بے ہوش رہے گا اس کو محبوبِ حقیقی کے علاوہ کوئی چیز
نظر نہیں آئے گی۔ اس مقام کی مدہوشی اتنی پرکیف
اور رنگین ہے کہ اس سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔
اس مقام کے بعد کامل ہوش اور صحو کا
مقام آتا ہے، اس کا نام مقامِ عبدیت ہے۔ یہ انکساری اور
خاک ساری کا مقام ہے، اس مقام پر بندہ بندہ ہے اور خالق خالق۔“
مجدد صاحب فرماتے ہیں: ”ہمہ اوست کہ معنی
”ہمہ از اوست“ کیے ہیں، یعنی ظہور وشہود جو کچھ ہے اسی
سے ہے۔
حضرت مجدد کی تعلیم اور ان کی
فکرکے یہ چند نمونے سامنے رکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت والا
نے کس بصیرت اور گہرائی کے ساتھ صحیح تصوف کو پیش کیا،
وہ یقینا ایک مجدد وقت، ایک دانائے روزگار حکیم، ایک
بلندپایہ عالم دین اور ایک بیدار قلب روحانی پیشوا
تھے۔ انھوں نے ایک زبردست سماجی انقلاب کی آب یاری
کی، ایک پورے عہد کو بدل ڈالا اور ایک نئے عہد اوراس کی
لطافتوں اور امنگوں کو پیدا کیا۔ حضرت مجدد الف ثانی کا تصورِ تصوف آج بھی ہمارے لیے
روشنی کا مینار ہے، اس تصور کو عام کیا جائے تو محبتِ الٰہی
کی خوشبو سے پورا سماج معطر ہوسکتا ہے۔
***
------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4 ،
جلد: 97 ، جمادی الثانیہ 1434 ہجری مطابق اپریل 2013ء